پتہ نہیں کونسا زہر ملایا ہے تم نے محبت میں
نا زندگی اچھی لگتی ہے اور نہ موت آتی ہے
حد تو یہ ہے کہ موت بھی تکتی ہے دور سے
اس کو بھی انتظار میری خود خوشی کا ہے
عشق سے بچیں صاحب
سنا ہے یہ دھیمی موت ہے
بے موت مر جاتے ہیں
بے آواز رونے والے
کون کہتا ہے موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو ندی ہو سمندر میں اتر جاؤں گا
اپنی موت بھی کیا موت ہوگی
ایک دن یوں ہی مر جائیں گے تم پہ مرتے مرتے
شکایت موت سے نہیں اپنوں سے تھی مجھے
ذرا سی آنکھ بند کیا ہوئی وہ قبر کھود نے لگے
نہ جانے میری موت کیسی ہوگی
لیکن تیری بے وفائی سے بہتر ہوگی
ایک مرد نے کیا خوب کہا ہے
یہ جو میری موت پر رو رہے ہیں
ابھی اٹھ جاؤں تو جینے نہیں دینگے
سنا ہے موت ایک پل کی بھی مہلت نہیں دیتی
میں مر جاؤں تو مجھے معاف کر دینا
موت سے تو دنیا مرتی ہے
عشق تو پیار سے مر جاتا ہے
یہ عشق بنانے والے کی قابلیت کی تعریف کرتا ہو
موت بھی ہوجاتی ہے اور قاتل بھی پکڑا نہیں جاتا
کیسی کہنا بالے نے کیا خوب کہا ہے کی
میری زندگی اتنی پیاری نہیں کی میں موت سے درو
قید ہیں کچھ خواب ان کھلی آنکھوں میں
نہ جانے کب جاگتی راتوں کا سویرا ہو جائے
نفرت کرنے کی دوا بتا دو یارو
ورنہ میری موت کی وجہ میرا پیار ہوگا
0 Comments
Please do not spam